قربانی کا پیغام امت مسلمہ کے نام
قربانی کا پیغام امت مسلمہ کے نام
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ اَمّا بَعْدْ۔
فَاَعُوذُ بِاللہِ السمیع العلیم مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ؕ
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی، وَ ذَکَرَ اسۡمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی"۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ آرزو وہ جستجو باقی نہیں ہے
نماز روزہ و قربانی وحج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے ۔
برادران اسلام: اللہ تعالیٰ حکیم وعلیم ہے اس کا کوئی بھی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے، قربانی بھی انہیں میں سے ایک ہے، ظاہر ہے قربانی کے اندر بھی بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، قربانی ہر سال آتی ہے مگر ہم جوں کہ توں ہیں، کوئی تبدیلی نہیں کوئی اصلاح نہیں، شاید ہم نے قربانی کا مقصد گوشت کھانا یا کھلانا سمجھ رکھا ہے، اس لئے ہمیں قربانی سے سیکھنے کی ضرورت ہے، اس سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے، قربانی کے پیغام اور اس کے مقاصد کو سمجھنے اور اسے عام کرنے کی ضرورت ہے، آج کے خطبہ جمعہ میں ہم ان شاءاللہ قربانی کے پیغام کو اختصار کے ساتھ آپ حضرات کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کریں گے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کہ ہمیں اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمادے آمین ۔
اطاعت و فرمانبرداری کا درس:
برادران اسلام : قربانی سے ہمیں جو سب سے پہلا درس ملتا ہے وہ اطاعت و فرمانبرداری کا درس، جیساکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ کا حکم ملا کہ حضرت اسماعیل کو قربان کریں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سامنے اپنے آپ کو جھکا دیا اور فورا اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے راستے میں قربان کرنے کیلئے تیار ہوگئے، اور یہی ایک بندہ مؤمن کی پہچان بھی ہے،
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ":(النور:51)
ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔
لہذا ہمیں بھی ہر حال میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے سامنے اپنا سر خم کردینا چاہیے اور ہمارے لئے ہر چیز سے بڑھکر اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم اہم ہونا چاہیئے، خواہ بات مال کی قربانی کی ہو یا جان کی...
اخلاص و تقویٰ کا درس :
برادران اسلام: قربانی سے ہمیں جو دوسرا درس ملتا ہے وہ ہے تقوی اور اخلاص کا درس،
قربانی کے ذمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بہت ہی واضح طور پر بیان فرمائی: لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ "(الحج:37) کہ اللہ تعالٰی کو (تمہاری) قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے توتمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے ۔
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر زبان نبوت سے یہ اعلان کردیا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ لوگوں میں یہ اعلان کردیجئے: قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ"(انعام:162)
آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کیلئے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک بھی ہے:إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ» (صحیح مسلم:6543)
کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا ، لیکن وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے ۔
لہذا قربانی سے ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم قربانی کی طرح دیگر اعمال صالحہ بھی اخلاص و للہیت کے ساتھ کریں ۔
سنت کی اہمیت کا درس:
برادران اسلام: قربانی سے ہمیں جو تیسرا درس ملتا ہے وہ ہے سنت کی اہمیت کا درس، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نزدیک وہی عمل قابل قبول ہے جو فرمان مصطفیﷺ سے ثابت ہو اور وہ عمل کسی بھی حال میں مقبول نہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ سے ہٹ کر ہو گرچہ وہ چیز کتنی اچھی ہی کیوں نہ ہو اور یہی سبق اور یہی پیغام ہمیں قربانی کے جانور کے ذریعے ہرسال دیا جا تا ہے وہ اس طرح سے کہ قربانی تبھی قابل قبول ہوگی جب انسان عیدالاضحی کی نماز کے بعد ذبح کرے اگر کسی نے عیدالاضحی کی نماز پڑھے بغیر جانور ذبح کرلی تو پھر اس کی قربانی قربانی نہیں بلکہ صرف گوشت کھانے کے مترادف ہے جیسا کہ براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کے مامو یا خالو نے عیدالاضحی کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی اپنے جانور کو ذبح کردیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ ‘‘ نماز سے پہلے تمہارا جانور ذبح کرنا یہ صرف گوشت ہے قربانی نہیں ہے، پھر آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ سنو!’’ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاَةِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ ‘‘ جس نے بقرعید کی نماز پڑھنے سے پہلے اپنے جانور کو ذبح کرلیا تو اس نے محض اپنے نفس کے لئے ہی ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اسی کی قربانی قابل قبول ہے اور ایسا کرنے والا ہی مسلمانوں کی سنت کو پائے گا۔ (بخاری:5546،مسلم:1962)
لہذا اس سے ہمیں درس ملتا ہے ہمارا جو بھی عمل ہو وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہو، ورنہ وہ عمل عند اللہ مقبول ہی نہیں جو سنت کے خلاف ہو ۔
خدمت خلق کا درس:
برادران اسلام: قربانی سے ہمیں چوتھا درس خدمت خلق کا ملتا ہے، قربانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دیکھو اپنی زندگی میں تم خدمت خلق کو مت بھولنا،اپنے مال میں سے غریبوں اور مسکینوں کا حصہ کچھ نہ کچھ ضرور نکالنا،اگر تمہیں خداکی رضا وخوشنودی مطلوب ہو تو پھر لاچارومجبور قسم کے لوگوں کی خبرگیری کرتے رہنا،غریبوں کی ہمیشہ مدد کرتے رہنااور اسی میں تمہاری دنیوی واخروی نجات ہے،قربانی کی اسی تعلیم کی طرف رب العالمین نے رہنمائی کرتے ہوئے اس بات کا حکم دیا کہ’’ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ‘‘ تم خود بھی قربانی کے گوشت سے کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔(الحج:28)
اور ایک دوسری جگہ پر رب العالمین نے بہت ہی وضاحت کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا کہ قربانی کے گوشت سے تم بھی فائدہ اٹھاؤ اور ان لوگوں کو بھی فائدہ پہنچایا کروجو مانگتے نہیں ہیں،
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ‘‘ یعنی قربانی کے گوشت سے تم خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔(الحج:36)
اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ زندگی میں ہم جب بھی کچھ کھائیں پئیں پہنیں تو دوسروں کا بھی خاص خیال رکھیں، بالکل خصوص غرباء و فقراء حضرات کا جن کا حق ہمارے مال پر اللہ نے مقرر فرمادیا ہے ۔
ایثار و قربانی کا درس :
برادران اسلام: قربانی سے ہمیں جو سب سے آخری اور بنیادی درس ملتا ہے وہ ہے ایثار و قربانی کا درس ، ایک دوسرے کے تئیں ہم اپنے دل میں ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کریں، ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بنیں، ایک دوسرے کیلئے قربانی دینا سیکھیں، ایک دوسرے کے غمخوار اور غمگسار بنیں، ایک دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دینا سیکھیں ۔
قرآن کریم میں ایسے ہی نیک لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ فرمایا: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا"(الانسان:8)
اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو۔
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی کے گھر میں بکرے کا سر بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو اس نے کہا : میرا فلاں بھائی اور اس کے بچے مجھ سے زیادہ ضرورتمند ہیں ۔ چنانچہ اس نے وہ گوشت اس کے گھر میں بھیج دیا ۔ جب وہ اِس دوسرے صحابی کے گھر میں پہنچا تو اس نے بھی وہی بات کی جو پہلے صحابی نے کی تھی اور گوشت تیسرے صحابی کے گھر میں بھیج دیا ۔ اِس طرح یہ گوشت سات گھروں میں سے ہوتا ہوا پھر پہلے صحابی کے ہاں پہنچ گیا ۔تب یہ آیت نازل ہوئی : ﴿ وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾بلکہ (یہ لوگ) خود اپنے اوپر (دوسروں کو) ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو_ [مستدرک حاکم ۔صححہ وافقہ الذہبی ۔ وصححہ الحافظ فی الفتح]
اسی طرح ایک دوسرا واقعہ سنیں
حضرت ابوجہم بن حذیفہؓ کہتےہیں کہ میں یرموک کی لڑائی میں اپنےچچازاد بھائی (جولڑائی میں شریک تھے)کی تلاش میں نکلا اور ساتھ ایک مشکیزہ پانی کا لے لیاکہ ممکن ہے وہ پیاسےہوں توپانی پلادوں گا،چنانچہ جب میں وہاں پہونچا تو دیکھا کہ وہ دم توڑرہے ہیں اورآخری سانسیں لے رہےہیں،میں نے پوچھا بھائی جان پانی کا گھونٹ دوں؟ انہوں نے اشارہ سے ہاں کی میں پانی ان کے منہ میں ڈالنے ہی لگاکہ اتنےمیں ایک دوسرے صاحب جو قریب ہی بیہوش پڑے تھے اور مرنے کے قریب تھے آہ کی، چنانچہ میرے چچازاد بھائی نےان کی آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا ،میں انکےپاس پانی لیکرگیا میں نے دیکھاتووہ ہشام بن العاصؓ تھے ۔
ابھی میں ان کےپاس پہونچاہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حال میں پڑے ملے جودم توڑ رہے تھے اور جان کنی کا عالم تھا انہوں نے آہ کی، چنانچہ ہشام بن العاصؓ نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا میں ان کے پاس پانی لیکر پہونچا تو دیکھا کہ ان کا دم نکل چکا ہے ۔
چنانچہ میں واپس ہشام بن العاصؓ کے پاس پلٹا دیکھا تو وہ بھی دم توڑ چکے تھے پھربھاگاہوا اپنے چچازاد بھائی کے پاس پہونچا دیکھا تو وہ بھی جاں بحق ہوچکے تھے۔
ہم ان دو واقعات سےاندازہ لگائیں کہ ان میں کس قدر ایک دوسرے کیلئے ہمدردی تھی،کس طرح وہ ایک دوسرےسے محبت کیاکرتےتھے ،کیسابھائی چارہ تھا،کیسی اخوت تھی کہ وہ ایک دوسرے کیلئے اپنی جانوں کو قربان کردیاکرتےتھے۔
اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قربانی سے درس و عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
